Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”رمشا ایک خوبصورت عورت تھی اور اپنی خوبصورتی کے جال میں دوسرے مردوں کو پھنسا کر لوٹنا اس کی ہابی تھی اور فاخر جو خود اس وقت ریزہ ریزہ تھا وہ اس مکار عورت کیلئے اچھا شکار تھا ،اس نے چنددنوں میں ہی اپنی چکتی چپڑی باتوں اور اداؤں سے اسے ایسا اسیر کر لیا کہ فاخر تو چند دنوں کی دوستی میں ہی اس پر اتنا لٹو ہوا کہ نکاح کرنے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔
”جی ،بتایا تھا ان دنوں فاخر نے مجھے کال کرکے کہ ان کو ایک پرخلوص، شریف و باکردار عورت مل گئی ہے جس کی زندگی میں آنے والے وہ پہلے مرد ہیں ،وہ پہلا پیار ہیں رمشا کا۔“ عائزہ جو زینی کے سامنے بیٹھی ان کی زبانی فاخر کی آپ بیتی سن رہی تھی بے ساختہ گویا ہوئی تھی۔
”ارے بڑی چلتر باز ،جھوٹی ،مکار عورت تھی نامعلوم کتنے مرد اس سے پہلے اس کی زندگی میں آئے پھر وہ شادی شدہ عورت تھی دو شادیاں پہلے کر چکی تھی ،نکاح پر نکاح کیا تھا اس نے اور تیسری شادی فاخر سے رچانے کی پوری تیاری کر چکی تھی۔


”کیا فاخر نے شادی نہیں کی تھی رمشا سے؟“
”شادی سے ایک دن پہلے شاپنگ سینٹر میں اس کا دوسرا خاوند مل گیا اور اس کے ساتھ دو بچے بھی تھے ،خاوند کو اس نے پہچاننے سے ہی انکار کر دیا تھا مگر دونوں بیٹیاں مما مما کہتی ہوئی اس سے لپٹ گئیں تو فاخر کو اس کے جھوٹ پر یقین آیا ،اس نے اسی وقت اس سے تعلق توڑ لیا تھا حالانکہ اس نے خود کو سچا ثابت کرنے کی بہت کوشش کی ،منت سماجت ،دھونس دھمکیاں ہر ہتھکنڈا آزمایا مگر… تم تو فاخر کی ضد جانتی ہو ناں وہ ٹھوکر مار کر آ گیا اس کو اور ملازمت سے بھی دستبردار کر دیا تھا۔
”یہ تو عورت کا مقدر ہوتا ہے آنٹی! سچ کہے یا دھوکہ دے دونوں صورتوں میں اسے ٹھوکر کھانی پڑتی ہے سزا و جزاء کا اختیار ایسا لگتا ہے مرد کے ہاتھوں میں آچکا ہے۔“ وہ دھیمے سے بولی۔
”عائزہ یہ دنیا کا اصول ہے جیسا کرو ویسا بھرو یہاں اپنا بویا کاٹنا پڑتا ہے بیٹا! تم نے بھی اپنی نادانی کی سزا بھگت لی ،فاخر نے بھی من مانی کا مزہ چکھ لیا، اب وہ تمہارے ساتھ زندگی کی شروعات نئے سرے سے کرنا چاہتا ہے تم اپنا فیصلہ سناؤ؟“ انہوں نے اسے قریب کرتے ہوئے محبت سے دریافت کیا۔
”زندگی بن ساتھی کے ادھوری ہوتی ہے فاخر کی غلطی کو بھول جاؤ ،تم نے اول دن سے فراخدلی دکھائی ہے عائزہ! اب بھی سب بھول کر معاف کر دو اسے،وہ بے حد شرمندہ ہے۔ تمہارا سامنا نہیں کر پا رہا ہے ،اس نے جو تمہارے ساتھ کیا اس کی سزا قدرت کی طرف سے اس کو مل گئی ہے۔“
”مجھے ان چندوں ماہ میں احساس ہوا ہے لڑکیاں شادی کے بعد کیسا بوجھ بن جاتی ہیں ،ہر نگاہ میں ،زبان پر یہی سوال ہوتا ہے کیا ہوا تم ابھی تک اپنے گھر نہیں گئیں؟ کب سے یہاں رہ رہی ہو ،سسرال میں دل نہیں لگتا؟ فاخر سے کوئی ان بن ہو گئی ہے۔
شادی کو ابھی دن ہی کتنے ہوئے اور تم میکے آ کر بیٹھ گئی ہو۔ ان سوالات نے مجھے چھلنی کر دیا ہے آنٹی!“
”شادی کے بعد لڑکیاں اپنے گھروں میں ہی اچھی لگتی ہیں ،تم فکر مت کرو، فاخر کے خوب کان کھینچے ہیں میں نے ،وہ تمہیں اف نہیں کہہ سکتا ہے۔“
###
مسز عابدی پھلوں و میٹھائیوں کے ٹوکروں کے ہمراہ وہاں پہنچی تھیں اور ان کو اس طرح آتے دیکھ کر جہاں گھر کے دوسرے افراد کو حیرانی ہو رہی تھی، وہاں صباحت بیگم اور عادلہ پر شادی مرگ جیسی کیفیت طاری تھی۔
ان کی آروز بر آئی تھی ،خواب کو تعبیر مل گئی تھی۔ دونوں ماں بیٹی بے حد خوش تھیں مگر اماں اور فیاض کی وجہ سے کھل کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے سے قاصر تھیں۔ اماں کو ان کا اس طرح فروٹ مٹھائی لانا بھایا نہیں تھا۔
”یہ رشتہ لانے کا کوئی طریقہ نہیں ہوا نور جہاں بیگم! پہلے رشتہ بھیجتیں اور ہاں کا انتظار کرتیں اگر ہاں ہوتی تو پھر تمہارا حق تھا یہ سب لانے کا ،تم تو رشتے کے ساتھ ہی یہ نیگ بھی لے کر آ گئیں ،ہمیں سوچنے سمجھنے کا ٹائم تو دو۔
”خالہ جان! یہ روایتی باتیں اب کہاں ہوتی ہیں پھر یہ تمام تکلفات وہاں ہوتے ہیں جہاں اجنبیت ہو ،ایک دوسرے سے شناسائی نہ ہو ،ہمارے اور آپ کے تعلقات کو مستحکم ہوئے عرصہ بیت گیا ہے ،اب ہم میں ایسی کوئی بات بیگانگی کی نہیں ہے۔ یہ گھر بھی ہمارا ہے اور آپ لوگ بھی ہمارے ہیں ،عادلہ کو اپنی بہو بنا کر ہم تو اس رشتے کو اور بھی زیادہ مضبوط کرنے آئے ہیں۔
“ عابدی صاحب نے مسکرا کر اماں کے اعتراضات پر کہا تھا۔
”بھئی واہ ،ماشاء اللہ… عابدی بیٹے! پہلی مرتبہ میں تم کو اتنا بولتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ وگرنہ میں نے تمہیں ہوں ،ہاں ،جی ،جی بہتر ہے سے زیادہ کچھ کہنے کا نہیں سنا ہے۔“ وہ قدرے اچنبھے سے مسکرا کر گویا ہوئیں۔
”اس بات سے اندازہ لگا لیں آپ اماں جان! میں کتنا خوش ہوں۔ اس رشتے سے آپ لوگوں سے تعلق جوڑنا میری خوش نصیبی ہے۔
فیاض کی بیٹی میری بہو بن کر آئے گی میرے گھر میں اجالا ہو جائے گا۔ فیاض! آج تم میری طرف سے خالہ جان سے سفارش کرو یار! شہر یار کو اپنی فرزندگی میں لے لیجئے اماں جان آپ۔“ وہ بات کرتے کرتے قریب بیٹھے فیاض سے مخاطب ہوئے جو فقط مسکرا کر رہ گئے تھے کہ کیا کہتے وہ۔
”خالہ جان! آپ شیری کو اچھی طرح جانتی ہیں آپ سے بہت زیادہ بے تکلف ہے وہ ،آپ کو اس میں کوئی خامی دکھائی دیتی ہے؟ کیا وہ سچ مچ آپ کا داماد بننے کے قابل نہیں ہے؟“ مسز عابدی نے ان کو ٹس سے مس نہ ہوتے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔
”خیر ایسی تو کوئی بات نہیں ہے کچھ جذباتی و لا ابالی سا کا لڑکا ہے وہ دماغ سے کم دل سے زیادہ فیصلہ کرنے والا ہے اور یہ کوئی ایسی معیوب باتیں نہیں ہیں جن پر گرفت کی جائے جب اس پر ذمہ داریاں عائد ہوں گی تو از خود ہی سمجھ دار اور سیانا ہو جائے گا۔“ اماں کے تسلی آمیز لہجے پر مسز عابدی نے مسکرا کر عابدی صاحب کی طرف دیکھا اور انہوں نے فیاض صاحب کی طرف دیکھا تھا۔
”اماں جان! طغرل آفس سے آتا ہوگا ،آپ اس سے مشورہ کر کے عابدی بھائی کو جواب دیجئے گا۔“ وہ اپنا پہلو بچا گئے تھے۔
”جی ،یہ بھی اچھی بات ہے پھر اب تو طغرل سے آپ کا دہرا رشتہ ہو گیا ہے، ان سے رائے لینا اچھی بات ہے۔“ مسز عابدی اس بات کو سراہتی ہوئی گویا ہوئی۔
”ارے وہ بچہ ہے ابھی ،بھلا اس کو ان باتوں کا کہاں تجربہ ہے ،یہ باتیں تو وقت کے ساتھ ساتھ انسان سیکھتا ہے جب عمر ہو گی وہ بھی سیکھ جائے گا۔
“ فیاض بیٹا! تم اپنی رائے بتاؤ مجھ سے زیادہ تمہارا حق ہے عادلہ پر اور صباحت ،تم بھی کہو عادلہ کیلئے شیری کا رشتہ منظور ہے تم دونوں کو؟“
”اماں جان جو آپ کا اور فیاض کا فیصلہ ہے وہ میرا بھی ہے ،ویسے اس رشتے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ شیری دیکھا بھالا بچہ ہے اس میں وہ ساری خصوصیات ہیں جو ایک اچھے انسان میں ہوتی ہیں۔“ صباحت نے واضح طور پر اپنی مرضی ظاہر کر دی تھی ،اعتراض تو اماں جان کو بھی نہ تھا۔
شیری کو وہ بھی پسند کرتی تھیں مگر دل میں کچھ انجانی سی کیفیت تھی جس کے سبب وہ فوری طور پر اقرار نہ کر سکی تھیں۔ سب کو راضی دیکھ کر انہوں نے اس پرپوزل کو منظور کر لیا تھا ،مسز عابدی مارے خوشی کے ان سے لپٹ گئی تھیں۔ کھڑکی کے پیچھے کھڑی عادلہ خود کو ہواؤں میں محسوس کرنے لگی تھی۔
###
اعوان نے محبت کے پرچم کو سر بلند رکھا تھا اور ثابت کر دیا تھا کہ محبت جسموں کے ملاپ کا نہیں ،جذبوں کے احترام کا نام ہے جس عورت کی وجہ سے وہ بھٹکا تھا۔
اس عورت کی وجہ سے ہی وہ راہ راست پر گامزن ہوا تھا۔ ماہ رخ کے صاف انکار کے بعد اس کے محبت بھرے دل کو شدید چوٹ لگی تھی لیکن اس چوٹ کو اس نے انتقام نہیں بنایا تھا بلکہ برداشت کرکے پہلے سے بھی زیادہ شدت سے گلفام کی تلاش میں لگ گیا پھر نیوز پیپرز میں اس کے تلاش گمشدہ کے اشتہار دے دیئے تھے یہ سب اس نے ماہ رخ کی لاعلمی میں کیا تھا کہ اگر گلفام کا پتہ نہ چلا تو وہ پریشان نہ ہو۔
نامعلوم ماہ رخ کی لگن سچی تھی یا اعوان کا خلوص بے لوث تھا ،ایک ہفتہ بعد وہ نیوز پیپرز کے ذریعے اس کے آفس پہنچ گیا تھا اور اس نے بالآخر ماہ رخ کی زندگی کا ایک ایک باپ کھول کر رکھ دیا تھا ،واپسی کے بعد اس کی خواہش بھی بیان کر دی تھی۔ گلفام اس کی توقع سے بڑھ کر حوصلہ مند صبر و تحمل پسند شخص ثابت ہوا تھا اس نے اسی وقت اسے اپنانے کا فیصلہ کر لیا تھا (حالانکہ اس کو یہ فیصلہ کرنے کیلئے کئی ہفتے لگے تھے) اس صلح جو و نیک فطرت بندے کو ماہ رخ کے ماضی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
وہ اس کو ابھی بھی پھولوں کی طرح پاکیزہ سمجھتا تھا وہ اس کی ہر لغزش کو دل سے معاف کر چکا تھا۔ ایک دن وہ اعوان کا مہمان رہا پھر دوسرے دن ماہ رخ سمیت وہاں سے جانے کی اجازت لی تو وہ گویا ہوا۔
”ایسی بھی کیا جلدی ہے یار! ابھی کچھ دن اور ٹھہر جائیں۔“
”بے حد نوازش اعوان صاحب! میرے پاس اب بالکل بھی ٹائم نہیں ہے ،دراصل میں سندھ کے ایک گاؤں میں مسجد اور مدرسہ تعمیر کرا رہا ہوں ،اس ہفتے سے ہی تعمیر کا کام شروع ہوا ہے وہاں مجھے سارا وقت دینا ہوگا اور ہر کام میں جب تک دیانتداری و ایمانداری شامل نہ کی جائے وہ کام ایسا ہی ہوتا ہے جیسے بغیر نمک کے روٹی۔
”آپ کی دیانتداری و ایمانداری پر مجھے پورا بھروسہ ہے گلفام صاحب! آپ نے ایسی نیک سعادت کی بات کی ہے میں آپ کو روکنا بھی گناہ سمجھوں گا ،ہاں اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور بتایئے گا بلکہ اس نیک کام میں ،میں بھی آپ کی کچھ مدد کرنا چاہوں گا۔“ وہ اس کی پروقار شخصیت سے متاثر ہوا تھا۔
”جزاک اللہ اعوان صاحب دراصل وہ مسجد اور مدرسہ میں اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کیلئے بنوا رہا ہوں ،زمین و گھر فروخت کرکے جو مجھے رقم ملی تھی اس رقم کا آدھا حصہ میں نے مسجد و مدرسہ کیلئے مختص کر دیا ہے اگر مجھے کبھی رقم کی ضرورت پڑی تو میں آپ سے رابطہ ضرور کروں گا۔
”ہاں ضرور ،میں منتظر رہوں گا۔“ وہ ایک چھوٹا بیگ ہاتھ میں اٹھائے سیاہ کڑھائی والی شال لپیٹے کمرے سے نکل کر ان کے قریب آئی تھی ،گلفام نے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے وہ ٹریول بیگ لے لیا تھا۔
”میں جا رہی ہوں اعوان!“ وہ چہرہ جھکا کر بولی تھی۔
”میں نے تمہارا دل دکھایا ہے مجھے معاف کر دینا ،تم نے میرے لئے اتنا کچھ کیا ،اس جہنم سے آزاد کروایا اور…“
”پلیز اسٹاپ اٹ ماہ رخ! کچھ مت کہو ،کچھ نہیں کیا میں نے تمہارے لئے ،سب میں نے اپنے لئے کیا ،میری وجہ سے شاہ رخ تم تک پہنچا اور میری وجہ سے تمہاری زندگی اس نے تباہ کی۔
“ وہ آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا۔
”تمہارا اصل مجرم میں ہوں ،کیوں ملوایا میں نے تمہیں اس خبیث سے؟ نہ تم کو اس سے ملواتا اور نہ یہ سب ہوتا جو ہوا۔“
”اعوان صاحب! ماضی کی راکھ کو کریدنا فضول ہے آپ اس کو جتنا چھیڑو گے اس میں دبی چنگاریاں اتنی بھڑکیں گی ،بہتر یہی ہے برائیوں کو اچھائیوں سے بدلنے کی کوشش کریں۔“ اس کو جذباتی ہوتا دیکھ کر گلفام نے متانت سے سمجھایا اور پھر اجازت لے کر ماہ رخ کے ہمراہ وہاں سے نکل گیا تھا۔
اعوان نے اس کے جانے تک نظریں جھکائے رکھی تھیں اور اس کے جانے کے بعد نگاہیں اوپر کیں تو آنسوؤں کی جھڑی لگ ہوئی تھی ہر طرف ویرانی سی چھا گئی تھی ،دل کی بستی اجڑ چکی تھی۔

   1
0 Comments